A Dream To change PAKISTAN

 
 
مجھ میں یہ کمی ہے کہ مجھے ایسا وقت نہیں ملتا۔ ایسی دھوپ نہیں ملتی۔ ایسا لان نہیں ملتا کہ جہاں پر میں ہوں اور میرا پالن ہار ہو اور کچھ نہ کچھ اس سے بھی بات ہو۔ عبادت اپنی جگہ بالکل ٹھیک ہے، لیکن اللہ خود فرماتا ہے کہ جب تم نماز ادا کر چکو تو پھر میرا ذکر شروع کرو۔ لیٹے ہوئے، بیٹھے ہوئے، پہلو کے بل۔ یعنی یہ بھی اجازت دی کہ جس طرح سے چاہو مرضی کرو۔ لیکن آدمی ایسا مجبور ہے کہ وہ اس ذکر سے محروم رہ جاتا ہے۔ کبھی کبھی یہ سوچیں کہ اس وقت میرا اللہ کہاں ہے؟ کیسے ہے؟ شہ رگ کے پاس تو ہے ہی، لیکن میں کیوں خالی خالی محسوس کرتا ہوں تو پھر آپ کو ایک آواز سے، ایک وائبریشن سے، جسے بدن کا ارتعاش کہتے ہیں، اس سے پتا چلتا ہے۔ یہ بڑے مزے کی اور دلچسپ باتیں ہیں، لیکن ہم اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ ہم اس طرف جا ہی نہیں سکتے اور اللہ نے چاہا تو جوں جوں وقت آگے بڑھتا جائے گا، ہمارے اندر شعور کی لہریں اور بیدار ہوتی چلی جائیں گی۔ ہم پہنچیں گے ضرور، جس طرح سے "کے ٹو" کی برفوں سے بہنے والا ایک چھوٹا سا نالہ دھکے کھاتا ہوا، جغرافیہ جانے بغیر، نقشہ لیے بغیر سمندر کی طرف جا رہا ہوتا ہے اور ایک دن سمندر میں پہنچ جاتا ہے۔ ہم بھی اپنے سمندر کے ساتھ جا کر ضرور ہمکنار ہوں گے۔
 
Picture
اِنَّااللہَ مَعَ الصَّابِرِینَ ۔ (بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔) اگر کسی نے اللہ کو پانا ہو تو وہ صبر کرنے لگ جاۓ تو اس کا کام بن جاتا ہے جبکہ لوگ اس کے لۓ ورد، وظیفے کرتے ہیں۔ ناک رگڑتے ہیں لیکن اللہ کو صبر کرنے والے پا لیتے ہیں۔ میں نے شاید اسی محفل میں پہلے بھی یہ بات بتائی ہے کہ میر ایک تائی تھیں۔ وہ تیلن تھی۔ اس کا شوہر فوت ہو گیا۔ وہ تائی بے چاری کولہو پیلتی تھی۔ نہایت پاکیزہ عورت تھی۔ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ ہوئی لیکن اس نے شادی نہیں کی۔ جب میں اس سے ملا تو تائی کی عمر کوئی ساٹھ برس کے قریب تھی۔ اس کے پاس ایک بڑی خوبصورت “رنگیل پیڑھی“ تھی، وہ اسے ہر وقت اپنی بغل میں رکھتی تھی جب بیل کے پیچھے چل رہی ہوتی تو تب بھی وہ اس کے ساتھ ہی ہوتی تھی۔ وہ ساگ بہت اچھا پکاتی تھی اور میں سرسوں کا ساگ بڑے شوق سے کھاتا تھا۔ وہ مجھے گھر سے بلا کے لاتی تھی کہ آ کے ساگ کھا لے میں نے تیرے لۓ پکایا ہے۔ ایک دن میں ساگ کھانے اس کے گھر گیا۔ جب بیٹھ کر کھانے لگا تو میرے پاس وہ “پیڑھی“ پڑی تھی میں نے اس پر بیٹھنا چاہا تو وہ کہنے لگی “ ناں ناں پُتر ایس تے نئیں بیٹھنا“ (نہ نہ بیٹا، اس پر مت بیٹھنا)، میں نے کہا کیوں اس پر کیوں نہیں بیٹھنا۔ میں نے سوچا کہ شاید یہ زیادہ خوبصورت ہے۔ میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ اس پر کیوں نہیں بیٹھنا۔ کیا میں تیرا پیارا بیٹا نہیں۔ کہنے لگی تو میرا بہت پیارا بیٹا ہے۔ تو مجھے سارے گاؤں سے پیارا ہے لیکن تو اس پر نہیں بیٹھ سکتا۔ کہنے لگی بیٹا جب تیرا تایا فوت ہوا تو مسجد کے مولوی صاحب نے مجھ سے کہا کہ “بی بی تیرے اوپر بہت بڑا حادثہ گزرا ہے لیکن تو اپنی زندگی کو سونا بھی بنا سکتی ہے۔ یہ تجھے اللہ نے عجیب طرح کا چانس دیا ہے۔ تو اگر صبر اختیار کرے گی تو اللہ تیرے ہر وقت ساتھ ہو گا کیونکہ یہ قرآن میں ہے کہ “ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے “ تائی کہنے لگی کہ میں نے پھر صبر کر لیا۔ جب کئی سال گزر گۓ تو ایک دن مجھے خیال آیا کہ اللہ تو ہر وقت میرے پاس ہوتا ہے اور اس کے بیٹھنے کے لۓ ایک اچھی سی کرسی چاہیے کہ نہیں؟ تو میں نے “رنگیل پیڑھی“ بنوائی اور اس کو قرینے اور خوبصورتی سے بنوایا۔ اب میں اس کو ہر وقت اپنے پاس رکھتی ہوں اور جب بھی اللہ کو بیٹھنا ہوتا ہے میں اسے اس پر بٹھا لیتی ہوں۔ میں کپڑے دھوتی ہوں، اپنا کام کرتی ہوں، روٹیاں ساگ پکاتی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میرا اور اللہ کا تعلق ہے اور وہ صبر کی وجہ سے میرے ساتھ ہے۔ خواتین و حضرات ایسے لوگوں کا تعلق بھی بڑا گہرا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جنہوں نے اس بات کو یہاں تک محسوس کیا۔ وہ قرآن میں کہی بات کو دل سے مان گۓ وہ خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں۔ ہم جیسے لوگ “ٹامک ٹوئیاں “ مارتے ہیں اور ہمارا رخ اللہ کے فضل سے سیدھے راستے ہی کی طرف ہے۔ ہم سے کچھ کوتاہیاں ایسی ضرور ہو جاتی ہیں جو ہمارے کۓ کراۓ پر “ کُوچی “ پھیر دیتی ہیں۔ جس سے ہمارا بدن، روح، دل خراب ہو جاتا ہے۔ 

 
میں نے رقیبوں کو محبت کی آگ میں جلتے اور بھسم ہوتے دیکھاہے۔ پھر ان کی راکھ کو کئی دن اور کئی کئی مہینے ویرانوں میں اڑتے دیکھاہے۔ان لوگوں سے بھی ملا ہوں،جو محبت کی آگ میں سلگتے رہتے ہیں اور جن پر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہلکی سی تہہ چڑھ جاتی ہے۔پھراور وقت گزرنے پر دور پار سے ہوا کا جھونکاگزرتا ہے، تو ان کی یہ راکھ جھڑ جاتی ہے اورانگارے پھر دہکنے لگتے ہیں ایسے لوگ بھی میری زندگی میں گزرے ہیں،جو چپ چاپ محبت کے سمندر میں اتر گئے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔وہ لوگ بھی ہیں جو کاروبار کرتے ہیں دفتروں میں بیٹھتے ہیں،دریا روکتے ہیں ،ڈیم بناتے ہیں،ٹینک چلاتے ہیں،اور محبت کی ایک بند ڈبیا ہر وقت اپنے سینے کےاندرمحفوظ رکھتےہیں۔ مسافر،سیاح،کوہ پیما،دشت نورو، آپ کسی کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے۔ دراصل محبت کے لئےایک خاص فضا،ایک خاص علاقے،ایک خاص ایکولوجی کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کےلیےدو لوگوں کی یاد،دلوں کے ملنے کی احتیاج نہیں ہوتی۔ایک خاص پس منظر کی ضرورت ہوتی ہے۔دراصل پس منظر بھی مناسب لفظ نہیں۔یہ تو آدمی کی سوچ محدود کردیتا ہے۔اس کے لیےایک اور چیز کی ضرورت ہوتی ہے،جس کا ابھی تک نام نجویز نہیں کیا جاسکا۔ اشفاق احمد  کے سفرنامے، سفر در سفر سے اقتباس
 
ہم کمزور لوگ ہیں جو ہماری دوستی اللہ کے ساتھ ہو نہیں سکتی۔ جب میں کوئی ایسی بات محسوس کرتا ہوں یا سُنتا ہوں تو پھر اپنے "بابوں" کے پاس بھاگتا ہوں_ میں نے اپنے بابا جی سے کہا کہ جی ! میں اللہ کا دوست بننا چاہتا ہوں۔ اس کا کوئی ذریعہ چاہتا ہوں۔ اُس تک پہنچنا چاہتا ہوں۔ یعنی میں اللہ والے لوگوں کی بات نہیں کرتا۔ ایک ایسی دوستی چاہتا ہوں، جیسے میری آپ کی اپنے اپنے دوستوں کے ساتھ ہے،تو اُنہوں نے کہا "اپنی شکل دیکھ اور اپنی حیثیت پہچان، تو کس طرح سے اُس کے پاس جا سکتا ہے، اُس کے دربار تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اُس کے گھر میں داخل ہو سکتا ہے، یہ نا ممکن ہے۔" میں نے کہا، جی! میں پھر کیا کروں؟ کوئی ایسا طریقہ تو ہونا چاہئے کہ میں اُس کے پاس جا سکوں؟ بابا جی نے کہا، اس کا آسان طریقہ یہی ہے کہ خود نہیں جاتے اللہ کو آواز دیتے ہیں کہ "اے اللہ! تو آجا میرے گھر میں" کیونکہ اللہ تو کہیں بھی جاسکتا ہے، بندے کا جانا مشکل ہے۔ بابا جی نے کہا کہ جب تم اُس کو بُلاؤ گے تو وہ ضرور آئے گا۔ اتنے سال زندگی گزر جانے کے بعد میں نے سوچا کہ واقعی میں نے کبھی اُسے بلایا ہی نہیں، کبھی اس بات کی زحمت ہی نہیں کی۔ میری زندگی ایسے ہی رہی ہے، جیسے بڑی دیر کے بعد کالج کے زمانے کا ایک کلاس فیلو مل جائےبازار میں تو پھر ہم کہتے ہیں کہ بڑا اچھا ہوا آپ مل گئے۔ کبھی آنا۔ اب وہ کہاں آئے، کیسےآئے اس بےچارے کو تو پتا ہی نہیں۔
 اللہ کے ساتھ دوستی
زاویہ دوم، باب گیارہ سے اقتباس
 
Start blogging by creating a new post. You can edit or delete me by clicking under the comments. You can also customize your sidebar by dragging in elements from the top bar.